حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ تحریک بیداری امت مصطفی (ص) کے زیر انتظام، خواتین کے شرف و مقام، حقوق و کردار کے احیاء، عورت کا فاطمی روپ اجاگر کرنے، اور بھارت اور کشمیر کی مظلوم خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ملک گیر ریلیاں نکالی گئیں۔ لاہور میں تکریم خواتین ریلی مال روڈ پر منعقد ہوئی جس کی قیادت تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کی۔
تصویری جھلکیاں: تحریک بیداری امت مصطفی (ص) کے زیر انتظام ملک گیر تکریم خواتین ریلیوں کا انعقاد
علامہ سید جواد نقوی نے اجتماع میں ممتاز خواتین کی شرکت اور انکے علمی نظریات کو بلندیوں کی سمت عورتوں کی پیش قدمی قرار دیا اور مختلف سیاسی، سماجی، ثقافتی اور خاص طور پر علمی میدانوں میں عورتوں کی پیشرفت کو قابل تعریف قرار دیا۔
علامہ سید جواد نقوی نے مزید کہا کہ عورت کی تکریم یہ ہے کہ اسے انسانی درجہ دیا جائے اور کم تر انسان نہ سمجھا جائے ۔عورت کو سماج نے جن زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے وہ جہالت، کم تر سمجھنا ، گھریلو تشدد، جیسے مسائل ہیں ۔ عورت کی عدم تکریم یہ ہے کہ وہ گھروں میں تشدد کانشانہ بنے اور بازار میں چند مردوں کی ہوس زدہ نظروں کا شکارہو، عورت کے حقوق پر ڈاکہ یہ ہے کہ اسے تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم رکھا جائے، عورت کے ساتھ زیادتی یہ ہے کہ اسے اپنے دین پر عمل کرنے کی پاداش میں بے حجاب کیا جائے، عورت پر جنایت یہ ہے کہ اسے ماڈرن ازم کے نام پر عریاں کر دیا جائے اور انسانی رتبے سے گرا کر کسی اشتہاری مہم کا آلہ کار بنا دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے عورت کو اس کی تکریم لوٹانی ہے جو نبی کریم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے زندہ کی تھی،عورتوں کو حقوق دئے تھے، ان کو وراثت کا حق دیا تھا، ان پر تعلیم کو فرض قرار دیا تھا، ان کی صحت و سلامتی کو اوّلیت دی تھی، انہیں چادر اور چار دیواری کا تحفظ دیا تھا، انہیں خانوادے کا مضبوط سہارا دیا تھا، اوراتنی تکریم دی تھی کہ نبی کریم ﷺ خود اپنی عزیز دختر جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ عورت کی شان و منزلت کے سلسلے میں مغرب کے غلط طرز فکر اور خاندان کے مسئلے میں اس کی کج فہمی کے باعث دنیا میں عورتوں کا مسئلہ باقاعدہ ایک بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔
انہوں نے مغرب میں حجاب کی اعلانیہ مخالفت کو عورتوں کے سلسلے میں ظالمانہ طرز فکر کا ایک نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حجاب کی مخالفت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اس سے عورتوں کی بے آبروئی کی مغرب کی اسٹریٹیجی کے لئے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور ان کے راستے میں رکاوٹیں آتی ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے بھارت، کشمیر اور فلسطین کی مظلوم لیکن بہادر خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا جو تمام تر مشکلات اور ظلم و جبر کے باوجود اپنے حقوق اور ازادی کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں اور حجاب کو اپنا افتخار مانتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کے برخلاف، خاندان اور عورت کے مقام و مرتبے کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ بالکل واضح اور روشن ہے کہ جب عورت قبیلہ کے سردار ،باپ،بھائی یا دوسرے لوگوں کی ظالمانہ ارادوں کے ما تحت ہوتی تھی اور ہر قسم کے حقوق سے بھی محروم تھی، اسلام نے اسے آزادی جیسی نعمت عطا کی ۔ اس طرح ہمسر کا انتخاب کرنے ، اپنے مال ودولت خرچ کرنے ، اور اظہار خیال کرنے میں استقلال اور آزادی عطا کی۔ تاکہ ان کی قدروقیمت پہچان سکے۔
انہوں نے مغربی طرز فکر سے متاثر ہو کر عورت مارچ کو معاشرے کے لئے کورونا سے بھی بدتر قرار دیا اور کہا کہ اگر اس فکر کا مقصد بے عفّتی ، شہوت رانی ، اخلاقی حدود کو پامال کرنا ،بے پردہ ہو کر گھر سے نکلنا ،محرم نا محرم کی تمیز کئے بغیر لوگوں میں مغربی طرز پر رہن سہن رکھنا ہو اور خاندانی آشیانے کو ویران کرکے نسلوں کو خراب اور بے سرپرست قراردینا ہے تو ہم قبول کرتے ہیں کہ اسلام نے ایسی آزادی عورت کو نہیں دی ہے۔یہ آزادی تو اسلام میں مردوں کیلئے بھی نہیں دی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ آج اس جدید اور متمدن دور میں خواتین پرظلم و ستم بھی جدید طریقے سے ہورہا ہے۔ جھوٹے نعرے اور دھوکہ کے ذریعے، جمہوریت اور خواتین کی آزادی وحقوق کے نام پر عورتوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں خصوصاً یورپی ممالک میں عورت کو اپنا سرمایہ اور مال و دولت کی خرید وفروخت کیلئے پبلسٹی کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح خاندان جو ہر انسان کی تشخص برقرار رکھنے کا ایک شرافت مندانہ وسیلہ تھا، درہم برہم کردیا گیا ہے ۔
انکا مزید کہنا تھا کہ حجاب، پاکدامنی اور مرد عورت کے بیچ فاصلے کو ملحوظ رکھنا، مردوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہونا، خود کو غیر مردوں کی لطف اندوزی کا سامان قرار دینے کی پستی میں نہ گرنا اور تحقیر برداشت نہ کرنا مسلم خواتین کی خصوصیات ہیں جسکی انہیں حفاظت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اسلام ص کی تحریک حضرت خدیجتہ الکبریٰ، حضرت فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسی خواتین کے مرہون منت ہے جو مردوں سے بھی پہلے دین اسلام کی مددگار بنیں اور یہ مغربی تہذیب کی بھول ہے کہ ہماری خواتین یہ اسوات حسنہ بھول جائینگی۔